ملا اختر منصور افغان صوبے قندہار کے ضلع میوند میں پیدا ہوئے، یہ علی زئی یا اسحاق زئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، یہ دونوں قبائل ڈیورنڈ لائین کے دائیں بائیں آباد ہیں، سن پیدائش 1963ء یا 1968ء تھا، خاندان مذہبی تھا، یہ لوگ افغان جہاد کے دوران پاکستان آ گئے، یہ طویل عرصہ نوشہرہ کے جلوزئی کیمپ میں رہے، ملا اختر منصور اکوڑہ خٹک کے دارالعلوم حقانیہ میں زیر تعلیم بھی رہے، یہ جوانی میں حزب اسلامی افغانستان (یونس خالص گروپ) میں شامل ہو گئے، یہ سوویت یونین کی فوج اور افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خلاف لڑتے رہے، 1990ء کی دہائی میں جب تحریک طالبان افغانستان کا ظہور ہوا تو یہ ملا عمر کے ساتھ شامل ہو گئے، یہ ملا عمر کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے طالبان میں بھی شامل تھے۔
یہ طالبان دور میں قندہار ائیر پورٹ کے انچارج بھی رہے اور افغانستان کی سول ایوی ایشن کے وزیر بھی۔ یہ طالبان کے زوال تک اہم پوزیشنوں پر کام کرتے رہے، امریکا نے 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا، طالبان کی لیڈر شپ فرار ہوگئی، ملا اختر منصور بھی ان لوگوں میں شامل تھے، یہ پاکستان آگئے، اس دور میں بلوچستان محفوظ ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا، کیوں؟ کیونکہ بلوچستان پاکستان کا وسیع ترین صوبہ ہے، رقبہ تین لاکھ47 ہزارایک سو90 مربع کلومیٹر اور آبادی محض پچاس لاکھ تھی، فاصلے بھی زیادہ تھے، لوگ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی نہیں بنواتے تھے اور پاکستان ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر رکھنے کے لیے یورپ اور امریکا کے باشندوں کو بلوچستان بھی نہیں جانے دیتا تھا چنانچہ یہ علاقہ طالبان لیڈر شپ کے لیے محفوظ جنت تھی۔
طالبان نے فیصلہ کیا وزراء اور ان سے اوپر درجے کے لوگ بلوچستان اور سندھ میں پناہ لیں گے اور ان سے نیچے درجے کے لوگ فاٹا اور خیبر پختونخواہ جائیں گے چنانچہ طالبان اور القاعدہ کی لیڈر شپ کوئٹہ اور کراچی میں پناہ گزین ہوگئی، طالبان نے اس صورتحال کے لیے 1995ء سے تیاری کر رکھی تھی، پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان، امریکا اور سعودی عرب تینوں طالبان پر مہربان تھے، طالبان نے ان مہربانیوں کا فائدہ اٹھایا، جعلی ناموں سے شناختی کارڈز بھی حاصل کیے، جائیدادیں بھی خریدیں، بینکوں میں اکاؤنٹس بھی کھولے اور پاکستان، دوبئی اور یمن میں شادیاں بھی کیں، یہ سرمایہ کاری 2001ء میں بار آور ثابت ہوئی اور یہ لوگ چپ چاپ سرحد پار کر کے پاکستان کے سیٹل ایریاز میں سیٹل ہو گئے، ان لوگوں میں ملا اختر منصور بھی شامل تھے۔
یہ بیک وقت پاکستان، افغانستان اور ایران تینوں ممالک میں گھومتے پھرتے رہتے تھے، یہ جب چاہتے قندہار چلے جاتے، جب چاہتے چمن اور کوئٹہ آ جاتے اور جب چاہتے ایران چلے جاتے، طالبان ذرایع کا خیال تھا ملا منصور کی فیملی ایران میں پناہ گزین ہے، یہ لوگ ایران کے بلوچ علاقے میں رہائش پذیر ہیں، یہ بھی شنید تھا ملا منصور کے پاس ایرانی شناختی کاغذات بھی موجود ہیں، یہ پاکستانی دستاویزات پر ایران جاتے تھے اور یہ کاغذات وہاں چھپا کر ایرانی شناختی کارڈ پر سفر کرتے تھے، یہ کاغذات کے بغیر بھی سرحد پار کر جاتے تھے۔
یہ ایران سے پاکستان آتے تھے، کوئٹہ، چمن اور کراچی میں رہتے تھے اور ضرورت پڑنے پر افغانستان چلے جاتے تھے، یہ فارسی، عربی، دری، پشتو اور اردو پانچ زبانیں روانی سے بول سکتے تھے چنانچہ انھیں تینوں ملکوں میں کسی جگہ مشکل کا سامنا نہیں ہوتا تھا، یہ ملا عمر اور ملا عبدالغنی برادر کے بعد اہم ترین طالبان کمانڈر تھے، ملا عبدالغنی برادر 2010ء میں کراچی میں گرفتار ہو گئے، ملا منصور ان کے بعد ملا عمر کے نائب اور رہبر شوریٰ کے قائم مقام سربراہ بن گئے، افغانستان اور امریکا دونوں نے 2015ء میں پاکستان سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی درخواست کی، یہ میاں نواز شریف کے لیے سیاسی لحاظ سے مشکل وقت تھا، عمران خان دھرنے کے ذریعے حکومت کو کمزور کر چکے تھے، فوج اور حکومت کے درمیان بھی تعلقات اچھے نہیں تھے، امریکا نے اگست 2014ء میں دھرنے کے مہینوں میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔
یہ احسان بھی پرانا نہیں ہوا تھا چنانچہ حکومت کے پاس امریکا کی مدد کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا، میاں نواز شریف نے طالبان کے ساتھ رابطے تلاش کیے، پیغامات بھجوائے اور طالبان کو افغانستان اور امریکا کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار کر لیا، یہ مذاکرات مری ڈائیلاگ کے نام سے مشہور ہوئے، پہلا دور 7 اور8 جولائی 2015ء کو ہوا، دوسرا دور 31 جولائی 2015ء کو ہونا تھا لیکن کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے امریکا نے افغان سیکیورٹی کے ترجمان عبدالحسیب صدیقی کے ذریعے تحریک طالبان افغانستان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی خبر لیک کرا دی، یہ خبر مذاکرات کے پورے عمل کو نگل گئی، پاکستانی حکومت آج تک حیران ہے امریکا نے اگر مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا تو اس نے یہ عمل شروع کیوں کرایا؟ یہ سوال 21 مئی 2016ء کی شام تک بے جواب رہا، ملا منصور کی ہلاکت کے بعد معلوم ہوا امریکا مذاکرات کے عمل کے ذریعے صرف طالبان کے اہم لیڈروں کو شناخت کرنا چاہتا تھا، یہ لوگ جوں ہی امریکی ٹیکنالوجی کی زد میں آئے، مذاکرات کی ضرورت ختم ہوگئی۔
ہم واپس ملا منصور کی طرف آتے ہیں، طالبان نے 31جولائی 2015ء کو ملا اختر منصور کو ملا عمر کی جگہ امیر المومنین چن لیا، یہ طالبان کے سربراہ بن گئے، یہ اس منصب پر 9 ماہ21 دن تک متمکن رہے، یہ اس دوران روٹین کے مطابق پاکستان، افغانستان اور ایران کے چکر لگاتے رہے، یہ موبائل فون استعمال نہیں کرتے تھے، یہ سیکیورٹی گارڈز بھی ساتھ نہیں رکھتے تھے اور یہ پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹیکسیوں میں سفر کرتے تھے چنانچہ ان کی شناخت مشکل تھی لیکن یہ اس کے باوجود امریکی ٹیکنالوجی سے اوجھل نہیں تھے۔
ان کی آواز، ان کی خوشبو، ان کے ہاتھوں کے نشان اور ان کے خدوخال تمام نشانیاں امریکی ڈیٹا بیس میں محفوظ تھیں، یہ ولی محمد کے شناختی کاغذات کے ذریعے 25 اپریل 2016ء کو ایران گئے، یہ ایران کیوں گئے؟ اس کے بارے میں دو اطلاعات ہیں، پہلی اطلاع، یہ علاج کے لیے ایران گئے تھے، علاج کروایا اور 21 مئی کو واپس آ گئے، دوسری اطلاع، یہ اپنی فیملی سے ملاقات کے لیے ایران گئے، یہ 26 دن ایران میں رہے، 21 مئی کو تفتان بارڈر پر آئے، پاکستان میں داخل ہوئے، رینٹ اے کار کی کمپنی کو فون کرایا، ٹیکسی بک کرائی اور کوئٹہ روانہ ہو گئے، ضلع نوشکی کے علاقے احمد وال کے قریب ان کی گاڑی پر حملہ ہوا اور یہ ڈرائیور سمیت دنیا سے رخصت ہو گئے، ملا منصور کو مارا کیسے گیا؟
اس کے تین امکانات ہیں، پہلا امکان، افغانستان سے ڈرون آیا، گاڑی کو فوکس کیا اور میزائل داغ دیا، دوسرا امکان، وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دعویٰ کیا امریکی ڈرون پاکستانی سرزمین میں داخل نہیں ہوا، یہ افغانستان میں تھا، اس نے وہاں سے گاڑی کو فوکس کیا اور سو کلومیٹر کے فاصلے سے گاڑی کو نشانہ بنا دیا اور تیسرا امکان، قاتلوں نے ملا منصور کا باقاعدہ پیچھا کیا، راستے میں ان کی گاڑی روکی، ان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ چیک کیا اور انھیں شناخت کے بعد طاقتور بم کے ذریعے اڑا دیا، یہ لوگ کام مکمل کرنے کے بعد ولی محمد کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ گاڑی کے نزدیک پھینک گئے، ان تینوں میں سے کون سا امکان زیادہ حقیقی ہے یہ وقت ثابت کرے گا، تاہم یہ حقیقت ہے امریکا نے ملا منصور کو مارنے کے لیے نازک وقت اور نازک جگہ کا انتخاب کیا، حکومت اور امریکا کے درمیان چھ ماہ سے کشیدگی چلی آ رہی تھی۔
امریکی سفیر نے چند ماہ پہلے طارق فاطمی سے ملاقات کی اور انھیں حقانی نیٹ ورک مکمل طور پر توڑنے کا حکم دیا، امریکی پاکستان کے جوہری پروگرام کی نگرانی بھی چاہتے تھے، یہ پاکستان میں چین کی بھاری سرمایہ کاری سے بھی خوش نہیں تھے اور یہ پاکستانی فوج کو سعودی عرب بھی بھجوانا چاہتے تھے، حکومت نے یہ تمام مطالبات مسترد کر دیے چنانچہ امریکی دباؤ شروع ہوگیا، امریکا نے پہلے آٹھ ایف سولہ طیارے دینے سے انکار کر دیا، پھر 19 مئی کو کولیشن سپورٹ فنڈ سے 45کروڑ ڈالر کم کر دیے اور آخر میں ملا منصور کو پاکستانی سرزمین پر قتل کر کے پاکستان کے طالبان سے اختلافات پیدا کرا دیے اور ولی محمد کا پاسپورٹ گاڑی کے قریب پھینک کر پاکستان کا شناختی نظام بھی مشکوک بنا دیا، دنیا اب ہمارے مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ پر بھی اعتماد نہیں کرے گی۔
یہ تمام واقعات خطرناک ہیں، امریکا ان خطرناک واقعات کے ذریعے دو بڑے ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے، پاک ایران گیس پائپ لائین اور پاک چین اقتصادی راہداری، یہ دونوں ایسے منصوبے ہیں جو پاکستان کو بڑی حد تک معاشی غلامی سے نکال سکتے ہیں، پاک ایران گیس پائپ لائین توانائی کی کمی پوری کر دے گی اور اقتصادی راہ داری گوادر جیسی پورٹ کو بھی ایکٹو کر دے گی اور ملک کے سالانہ ریونیو میں بھی اربوں ڈالر کا اضافہ ہو جائے گا، ملک میں دہشت گردی میں بھی بہت کمی واقع ہوئی ہے، امریکا اس سے بھی خوش نہیں تھا چنانچہ اس نے ایک تیر کے ذریعے تین شکار کا فیصلہ کر لیا، امریکا نے طالبان کے امیر کو پاکستانی سرزمین پر مار کر پاکستان اور طالبان کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا، طالبان کے امیر کو ایران سے واپسی پر ٹارگٹ کر کے پاکستان اور ایران دونوں کے سسٹم کو کمزور اور غیر فعال ثابت کر دیا اور امریکا نے دہشت گردی کی جنگ کو فاٹا سے اس علاقے میں منتقل کر دیا۔
جہاں مستقبل کے دونوں پاکستانی منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں لہٰذا یہ حملہ محض ایک حملہ اور یہ قتل صرف ایک قتل نہیں تھا یہ ہمارے ہولناک مستقبل کا نقطہ آغاز تھا لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کیا میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں مستقبل کے ان خطرات سے واقف ہیں، میرا خیال ہے نہیں کیونکہ یہ لوگ اگر حالات سے واقف ہوتے تو یہ کبھی ملک کو اس صورتحال تک نہ پہنچنے دیتے، یہ ہماری لیڈر شپ کی نالائقی اور کوتاہ فہمی تھی جس کی وجہ سے ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں امریکا ملا منصور کو احمد وال میں مار کر کہتا ہے، ہمیں اگر مستقبل میں بھی کوئی ایسا ٹارگٹ نظر آیا تو ہم اس پر بھی حملہ کریں گے، یہ بیان صرف بیان نہیں یہ پاکستان کے لیے وارننگ ہے، کیا ہم یہ وارننگ سن رہے ہیں، اگر ہاں تو ہمارے لیڈر کہاں ہیں؟ کیا یہ جاگ رہے ہیں اور کیا یہ اس نازک وقت میں قوم کی قیادت کے لیے تیار ہیں؟ یہ فیصلہ کب ہوگا اور کون کرے گا؟